آج ہم آپ کو جو اسلامی سٹوری بتانے والے ہیں وہ امام غزالی کی حالات زندگی کے چند مشہور ترین واقعات ہیں ملاحظہ فرمائیں
اسلامی بھائیو! اس واقعے سے حُجَّةُ الإسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد
غزالى علیہ رحمة اللہ الوالی کے بارگاہ رسالت میں بلند مقام و مرتبے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حضرت
سیدنا امام غزالی عليه رحمة اللہ الوالی کا شمار ان مقدس ہستیوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی ساری زندگی دنیا
کی ان فانی رونقوں اور لذتوں سے بیگانہ ہو کر رضائے الہی کی خاطر حضول علم دین اور پھر تبلیغ دین مبین
کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ آپ کی ہر ادا میں محبت خدا اور عشق مصطفے کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں، سوچ وفکر اور تحریر پر اثر میں موجود معرفتِ خُداوندی کی تجلیوں سے لوگوں کے سینے روشن ہوتے ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے احیائے دین اسلام کے لیے ایسے ایسے کارنامے انجام دیئے کہ اپنے وقت کے مجدد بن کر افق عالم پر چھکے۔ آپ رحمہ اللہ تعال مدنیہ کی آب و تاب اور علمی سج دھج کی چمک سے آج بھی عالم اسلام منور ہو رہا ہے۔ آپ کی مُبارک زندگی سے امت مسلمہ کو اطاعت خداوندی سنتوں کی پاسداری ، زہد و تقوی اور دیگر بہت سی نیک خصلتیں اپنانے کا جذبہ ملتا ہے۔ آئیے حضول برکت اور نزول رحمت کیلئے آپ کی مبارک زندگی
کے چند مختصر گوشوں کے بارے میں سنتے ہیں:
imam ghazali
نام و نسب اور ولادت با سعادت:
آپ کی کنیت ابو حامد، لقب حُجَّةُ الإسلام (اسلام کی دلیل) اور نام نامی اسم گرامی محمد بن محمد بن محمد بن احمد طوسی غزالی شافعی رحمہم الله تعالیٰ ہے۔ آپ 450ھ میں خراسان کے ضلع طوس کے علاقے طاہران میں پیدا ہوئے۔ (اتحاف امام النتین مقدم التبرج ارس ) خراسان ، ایران کے مشرق میں واقع ایک وسیع صوبہ تھا۔ موجودہ صوبہ خراسان میں قدیم خراسان کا نصف بھی شامل نہیں، کچھ افغانستان اور کچھ دیگر ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ اور بروز پیر 14 جمادی الآخر 505ھ
بمقام طابران (عوس) میں انتقال فرمایا اور وہیں آپ کا مزار
فائض الانوار ہے
ابتدائی حالات:
حجة الإسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی عليه رحمة الله الوالی کے والد ماجد حضرت سیدنا
محمد بن محمد عليه رحمة الله الصمد شہر خراسان ہی میں اون کات کر بیچا کرتے تھے، یعنی پیشے کے لحاظ سے
دھاگے کے تاجر تھے ( اور دھاگے کو فارسی میں غزل کہتے ہیں ) ، اس نسبت سے آپ کا خاندان " غزالی " کہلاتا ہے
حضرت سید نا تاج الدین عبد الوھاب سبكى عليه رحمه الله القوی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام
محمد غزالى عليه رحمة الله الوالی کے والد ماجد عليه رحمہ نیک اور متقی انسان تھے۔ اپنے ہاتھ کی کمائی
سے کھاتے، یعنی اون کات کر فروخت کرتے تھے۔ حضرات فقہائے کرام رحمهم اللہ السلام کی مجالس میں
حاضر ہوتے، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتے محتی المقدور اُن پر خرچ کرتے اور ان کی مجالس میں فيضان امام غزالی عَلَيْهِ رَحْمَةُ اللهِ الوال
ہے۔ حضرت سید نا تاج الدین عبد الوهاب سبكى عَلَيْهِ رَحمة الله القوی فرماتے ہیں کہ حضرت سید نا عام
محمد غزالى عليه رحمة الله الزوال کے والد ماجد علیہ رحمہ اللہ التواجد نیک اور متقی انسان تھے۔ اپنے ہاتھ کی کمائی
سے کھاتے ، یعنی اون کات کر فروخت کرتے تھے۔ حضرات فقہائے کرام رحمهم الله السلام کی مجالس میں
حاضر ہوتے، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتے حتی المقدور ان پر خرچ کرتے اور ان کی مجالس میں
خوف خدا سے گریہ وزاری (یعنی رویا ) کرتے اور اللہ عزوجل سے دعا کرتے کہ ” مجھے بیٹا عطا کر اور اسے
فقیه (عالم) بنا۔ نیز اسی طرح مجالس وعظ میں حاضر ہوتے۔ وہاں بھی رو رو کر اللہ عزوجل سے دعا کرتے
کہ مجھے بیٹا عطا کر اور اسے واعظ ( مبلغ بنا۔ اللہ عزوجلا نے ان کی یہ دونوں دعائیں قبول فرمائیں۔
(طبقات الشافعية الكبرى، ج 1 ، ص ؟
حضرت سیدنا امام غزالی علیہ رحمہ اللہ اوالی کے والد محترم رحمة الله تعالیٰ علیہ اگر چه خود با قاعدہ
عالم دین نہ تھے، لیکن آپ کو علم دین کی اہمیت کا احساس تھا، اسی لیے آپ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلی
خواہش تھی کہ اُن کے دونوں صاحبزادے محمد غزالی اور احمد غزالی رحمہم اللّٰہ تعالیٰ زیور علم شریعت و
طریقت سے آراستہ ہوں۔ ابھی سیدنا امام غزالی اور آپ کے بھائی کم عمر ہی تھے کہ 465ھ میں
والد محترم وصال فرما گئے۔ انتقال سے پہلے انہوں نے اپنے ایک صوفی دوست حضرت سید نا ابو حامد احمد
بن محمد رازکانی قدس سرہ النورانی کو وصیت کی تھی کہ ”میرا تمام اثاثہ میرے ان دونوں بیٹوں کی تعلیم
و پرورش پر خرچ کر دیجئے گا۔ وصیت کے مطابق ان کے والد گرامی کا سرمایہ ان کی تعلیم و پرورش پر
صرف کر دیا گیا۔ (الحلاف السادة المتلقين، مقدمة الكتاب
تعلیم کے لئے سفر :
علم دین ایک لازوال دولت ہے۔ یقینا علم کی طلب کرنا ،
یادل میں اس کی خواہش پیدا ہونا، علم دین کی مجالس میں شرکت کرنا اور علماء سے محبت رکھنا، یہ سب
سعادت مندی کی علامتیں ہیں۔ فرمان مصطفے صلی اللہ تعالى عليه واله وسلم ہے : أَعْدُ عَالِمًا أو مُتَعَلنا
او مُسْتَبِعًا أو مُحِمَّا وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلِكَ (كشف الخفاء الحديث ۴۳۷، ج ۱، ص ۱۳۴)
یعنی صبح کر اس حالت میں کہ تو خود عالم ہے یا علم سیکھتا ہے یا عالم کی باتیں سنتا ہے یا ادنی درجہ یہ کہ عالم سے محبت رکھتا
ہے اور پانچواں نہ ہونا کہ ہلاک ہو جائے گا۔
حجَّةُ الإسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی علیہ رحمہ اللہ الولی نے اپنی تمام تر زندگی علم کی
پیاس بجھانے میں بسر کی اور حصول علم کے لیے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کئی سفر کیے۔ ابتدائی تعلیم
اپنے شہر میں ہی حاصل کی، جہاں کتب فقہ حضرت سیدنا احمد راز کانی سے پڑھی ابھی
عمر شریف 20 سال سے کم ہی تھی کہ مزید حصول علم کیلئے ( ایران کے مشرقی شہر ) جرجان تشریف لے
گئے۔ 473ھ میں (ایران کے قدیم شہر ) نیشاپور میں حضرت سیدنا امام الحرمين امام عبد الملک جوینی
علیہ رحمہ اللہ الغنی کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ طے کیا (یعنی ان کی شاگردی اختیار کی اور ان سے اُصول
منطق اور حکمت وغیرہ میں مہارت تامہ (یعنی مکمل
مہارت حاصل کی۔ 478ھ میں حضرت سیدنا
امام الحرمین رحمۃ اللّٰہ علیہ کے وصال کے بعد ان کی جگہ آپ کو اس منصب اعلی پر فائز کیا گیا۔
484ھ میں وزیر نظام الملک نے مدرسہ نظامیہ بغداد کے شیخ الجامعہ (وائس چانسلر ) کا عہدہ آپ رحمۃ
اللہ تعالی علیہ کو پیش کیا، جسے آپ نے قبول فرمالیا۔ چار سال بغداد میں تدریس و تصفیف میں مشغولیت
کے بعد حج کے ارادے سے مکہ مکہ معظمہ روانہ ہو گئے، بقول علامہ ابن جوزی عليه رحمةً
اللہ القوی بغداد میں آپ کی مجلس درس میں بڑے بڑے علمائے کرام حاضر ہوتے ، جیسے حضرت
سیدنا امام ابو الخطاب محفوظ حمبلی اور عالم العراق حضرت سیدنا علی بن عقیل بغدادی حنبلی رحمه الله
تعالیٰ علیہ وغیرہ۔ یہ حضرات آپ سے اکتساب فیض کرتے اور آپ کے بیان پر حیرت کا اظہار
کرتے اور آپ کے کلام کو اپنی کتابوں میں نقل کرتے۔ (استیم بی ہر الملوک عام رانا من )
حج کی ادائیگی کے بعد آپ رحمتہ اللہ تعال علیہ 489ھ میں دمشق پہنچے اور کچھ دن وہاں قیام فرمایا۔
ایک عرصہ بیت المقدس میں گزارا۔ پھر دوبارہ دمشق تشریف لائے اور جامع دمشق کے مغربی منارے
پر ذکر و فکر اور مراقبے میں مشغول ہو گئے، دمشق میں زیادہ تر وقت حضرت سید ناشیخ الاسلام نصر بن
ابراهيم مُقَدَّسَى عَلَيْهِ رَحمة اللہ الوالی کی خانقاہ میں گزرتا تھا۔ ملک شام میں 10 سال قیام فرمایا، اسی دوران
احیاء العلوم (4 جلدیں) ، جَوَاهِرُ الْقُرآن تفسير يا قوتُ التَّاوِيل (40) جلدیں) اور مشكاة الأنوار وغیرہ مشہور
کتب تصنیف فرمائیں۔ پھر حجاز ، بغداد اور نیشاپور وغیرہ کا سفر کیا۔ بالآخر اپنے آبائی شہر طوس واپس آکر
عبادت وریاضت میں مصروف ہو گئے اور تادم آخر وعظ و نصیحت، عبادت وریاضت اور تصوف کی تدریس
میں مشغول رہے۔
(اتحاف السادة النتین مقدمة الكتاب ، ج ۱، ص ۱۱۳۹)
شیخ کامل کی بیعت:
حضرت سیدنا امام غزالی رحمہ اللہ الوالی نے دور طالب علمی میں حضرت سیدنا شیخ ابو علی فضل
بن محمد بن علی فارمدی طوسی علیہ رحمہ اللہ القوی کے ہاتھ پر (27 سال کی عمر میں ) بیعت کی۔ شیخ ابو علی
فارمدی عَلَيْهِ رَحْمَةُ الله القوى فقہ شافعی کے زبردست عالم اور امام الاولیا حضرت سیدنا امام ابو القاسم
عبد الکریم قشری علیہ رحمہ اللہ القوی کے جلیل القدر شاگرد اور حضرت ابو القاسم عبد اللہ گرگانی کے مرید ہیں۔
(اتحاف السادة المتقين، مقدمة الكتاب، ج 1 ، ص ٢٦)
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق
آپ کی سادگی اور یاد آخرت:
حضرت سیدنا امام محمد غزالی علیہ رحمة الله الوالی ایک بار مکہ معظمه ( ادعا الله الا تعنیا) میں تشریف
فرما تھے۔ آپ چونکہ ظاہری شان و شوکت سے بے نیاز تھے۔ اس لئے آپ نہایت سادہ اور معمولی قسم
کا لباس پہنے ہوئے تھے۔ حضرت سیدنا عبد الرحمن طوسی علیہ رحمہ اللہ القوی نے عرض کی: ” آپ کے
پاس اس کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہیں ہے۔ آپ امام وقت اور پیشوائے قوم ہیں، ہزاروں لوگ
آپ کے مرید ہیں؟" آپ نے جواب دیا: " ایسے شخص کالباس کیا دیکھتے ہو ، جو اس دنیا میں ایک
مسافر کی طرح مقیم ہو اور جو اس کائنات کی رنگینیوں کو فانی اور وقتی تصور کرتا ہو۔ جب والی دو جہاں
رحمت عالمیاں صل الله تعالی علیہ والہ وسلم اس دنیا میں مُسافر کی طرح رہے اور کچھ مال و زر اکٹھا نہ کیا
تو میری کیا حیثیت اور حقیقت ہے۔
حضرت عمر فاروق کے واقعات
شہرت وناموری سے دوری:
ایک بار آپ رحمه الله تعالیٰ علیه جامع اموی دمشق میں تشریف فرما تھے ۔ مفتیان کرام کی ایک
جماعت صحن مسجد میں موجود تھی۔ ایک دیہاتی نے آکر مفتیان کرام سے کوئی سوال پوچھا، مگر کسی نے اس کا جواب نہیں دیا۔ جبکہ حضرت سیدنا امام غزالی رحمة الله تعالیٰ علیہ خاموش تھے ، پھر جب آپ نے دیکھا کسی کے پاس اس کا جواب نہیں اور جواب نہ ملنا اس پر شاق (ناگوار گزرا ہے ، تو اس دیہاتی کو اپنے پاس بلا کر سوال کا جواب بتایا۔ مگر وہ دیہاتی مذاق اُڑانے لگا کہ "جس سوال کا جواب بڑے بڑے مفتیوں نے نہیں دیا، یہ عام فقیر کیسے دے رہا ہے۔ " اس وقت وہ مفتیان کرام یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ دیہاتی جب آپ سے بات کر کے فارغ ہوا تو ان مفتیان عظام نے اسے بلا کر پوچھا : " اس عام سے آدمی نے کیا جواب دیا ؟ " جب اس نے حقیقت حال واضح کی تو یہ حضرات امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس گئے اور جب ان سے متعارف ہوئے تو ان سے درخواست کی کہ "آپ ہمارے لئے ایک علمی نشست کا انعقاد کریں۔ آپ نے اگلے دن کا فرما دیا، مگر اسی رات وہاں سے سفر کر گئے۔
(طبقات الشافعية الكبری، ج ۶، ص ۱۹۹)
Post a Comment