امام احمد بن حنبل imam ahmad bin hanbal
آج ہم آپ کو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زندگی کے چند واقعات بتانے والے ہیں اور آخر میں آپ کی وفات کے بعد کا ایک شاندار واقعہ ہے جو آپ حضرات ضرور پڑھیں
imam ahmad bin hanbal
حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل
عَلَيْهِ رَحْمَةُ اللَّهِ الأَوَّل
حالات:
آپ رَحْمَةُ اللهِ تعالی علیہ کا نام احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن اسد شیبانی
اور کنیت ابو عبد اللہ ہے ۔ ربیع الاول کے شروع میں 164 ھ کو بغداد میں پیدا
ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بغداد ہی میں حاصل کی اس کے بعد دیگر شہروں کی طرف سفر
اختیار کیا ۔ آپ رَحْمَةُ اللهِ تَعَالٰی عَلَیہ مجتہد فی المذہب ، بہت بڑے فقیہ، پر ہیز گار،
سنت کی پیروی کرنے والے ، استقامت کے ساتھ عبادت وریاضت کرنے والے اور اپنے زمانے کے لوگوں میں سب سے افضل تھے ۔ آپ رَحْمَةُ اللهِ تعالی
علیہ کے پاس سرکار والا تبار، ہم بے کسوں کے مددگا رصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا
ایک موئے مبارک
تھا اس کو کبھی اپنے ہونٹوں پر رکھ کر چومتے کبھی آنکھوں پر رکھتے
اور بیماری میں پانی میں ڈال کر اس کا دھوون پیتے اور شفا حاصل کرتے ۔ آپ
رحمةُ اللهِ تَعَالٰی عَلَیہ کا انتقال جمعہ کے دن 241 ھ کو ہوا۔ جب حضرت سیدنا
ابو جعفر بن ابی موسیٰ رَحمَةُ الله تعالی علیہ کو آپ کے برابر میں دفنایا جارہا تھا تو آپ
رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی قبر کھل گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ قبلہ رو لیٹے ہیں اور کفن بالکل صحیح
و سالم ہے۔ یہ واقعہ انتقال کے 230 سال بعد پیش آیا
فرمان
آپ رَحْمَةُ اللهِ تَعَالَى عَلَیہ کا ارشاد ہے کہ جب تم قبرستان جاؤ تو سُورَةُ
الْفَاتِحَةِ قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ، قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ، اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھو اور
قبرستان والوں کو اس کا ثواب ایصال کر دو کہ یہ ثواب مردوں تک پہنچتا ہے ۔“
ہمیں چاہیے
اسلامی بھائیو! ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے مردوں کو ایصال ثواب
کرتے رہیں اور ان کے معاملے میں غفلت نہ برتیں کہ حدیث پاک میں آتا ہے:
مردہ کا حال قبر میں ڈوبتے ہوئے انسان کی مانند ہے کہ وہ شدت سے انتظار کرتا
ہے کہ باپ یا ماں یا بھائی یا کسی دوست کی دعا اس کو پہنچے اور جب کسی کی دعا اسے
پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دنیاو ما فيها (یعنی دنیا اور اس میں جو کچھ ہے) سے بہتر
ہوتی ہے۔ اللہ عز وجل قبر والوں کو ان کے زندہ متعلقین کی طرف سے ہدیہ کیا ہواثواب پہاڑوں کی مانند عطا فرماتا ہے ، زندوں کا ہدیہ (تحفہ) مردوں کے لئےدعائے مغفرت کرنا ہے ۔
اللہ عزوجل کا کلام قدیم ہے:
حضرت سید نا امام احمد بن حنبل علیہ رحمہ اللہ الاؤل کو بعد وفات ان کے ایک
مصاحب نے خواب میں دیکھا کہ نازو انداز سے چل رہے ہیں ۔ انھوں نے
پوچھا: یہ کیسی چال ہے؟ فرمایا: ” یہ دار السلام (جنت) میں خادموں کی چال
ہے ۔ پوچھا: " مَا فَعَلَ اللهُ بِكَ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟
ارشاد فرمایا: بخش دیا ، سونے کے جوتے پہنائے اور ارشاد فرمایا: ” تم نے جو کہا تھا
کہ قرآن کلام اللہ غیر حادث ہے، یہ اس کی جزا ہے۔ اور مجھے اجازت دی
کہ " اے احمد! جہاں چاہو جاؤ ۔ پس میں جنت میں داخل ہوا۔ وہاں میں نے
حضرت سید نا سفیان ثوری عَلَيْهِ رَحْمَةُ اللہ القوی کو دیکھا، ان کے دوسبز پر ہیں جن
کے ذریعے ایک درخت سے دوسرے درخت اڑتے پھر رہے ہیں اور یہ آیت
تلاوت کر رہے ہیں : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَاوَعْدَهُ وَ أَوْرَثَنَا الْأَرْضَ تَتَبَوا
مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَمِلِينَ ) (ب ۲۴، السر مسر (۷۴) ترجمہ کنز الایمان:
سب خوبیاں اللہ کو جس نے اپنا وعدہ ہم سے سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث کیا کہ ہم جنت
میں رہیں جہاں چاہیں تو کیا ہی اچھا ثواب کا میوں کا ۔‘ مصاحب نے دریافت کیا:
حضرت سید نا عبد الواحد وثاق عَلَيْهِ رَحْمَةُ
اللهِ الرزاق کی کیا خبر ہے ۔ فرمایا: ” میں
نے انھیں دریائے نور میں کشتی نور پر سوار ہو کر اللہ عزوجل کی زیارت کرتے ہوئے
دیکھا ہے اور اسی حال میں انھیں چھوڑ کر آیا ہوں ۔ پوچھا: " حضرت سید ناشر بن حارث علیہ رحمة الله الوارث کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا: واہ واہ! ان کی طرح کون
ہو سکتا ہے۔ میں ان کے پاس سے اس حال میں واپس آیا ہوں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان
سے ارشاد فرما رہا تھا ” اے نہ کھانے والے! کھاؤ اور اے نہ پینے والے ! پیو اور
اے پریشانی میں زندگی گذارنے والے! اب خوش حال اور آسودہ رہو ۔“ (۱)
حضرت سید نا امام احمد بن حنبل علیہ رحمہ اللہ الاؤل کو بعد وفات ان کے ایک
مصاحب نے خواب میں دیکھا کہ نازو انداز سے چل رہے ہیں ۔ انھوں نے
پوچھا: یہ کیسی چال ہے؟ فرمایا: ” یہ دار السلام (جنت) میں خادموں کی چال
ہے ۔ پوچھا: " مَا فَعَلَ اللهُ بِكَ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟
ارشاد فرمایا: بخش دیا ، سونے کے جوتے پہنائے اور ارشاد فرمایا: ” تم نے جو کہا تھا
کہ قرآن کلام اللہ غیر حادث ہے، یہ اس کی جزا ہے۔ اور مجھے اجازت دی
کہ " اے احمد! جہاں چاہو جاؤ ۔ پس میں جنت میں داخل ہوا۔ وہاں میں نے
حضرت سید نا سفیان ثوری عَلَيْهِ رَحْمَةُ اللہ القوی کو دیکھا، ان کے دوسبز پر ہیں جن
کے ذریعے ایک درخت سے دوسرے درخت اڑتے پھر رہے ہیں اور یہ آیت
تلاوت کر رہے ہیں : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَاوَعْدَهُ وَ أَوْرَثَنَا الْأَرْضَ تَتَبَوا
مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَمِلِينَ ) (ب ۲۴، السر مسر (۷۴) ترجمہ کنز الایمان:
سب خوبیاں اللہ کو جس نے اپنا وعدہ ہم سے سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث کیا کہ ہم جنت
میں رہیں جہاں چاہیں تو کیا ہی اچھا ثواب کا میوں کا ۔‘ مصاحب نے دریافت کیا:
حضرت سید نا عبد الواحد وثاق عَلَيْهِ رَحْمَةُ
اللهِ الرزاق کی کیا خبر ہے ۔ فرمایا: ” میں
نے انھیں دریائے نور میں کشتی نور پر سوار ہو کر اللہ عزوجل کی زیارت کرتے ہوئے
دیکھا ہے اور اسی حال میں انھیں چھوڑ کر آیا ہوں ۔ پوچھا: " حضرت سید ناشر بن حارث علیہ رحمة الله الوارث کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا: واہ واہ! ان کی طرح کون
ہو سکتا ہے۔ میں ان کے پاس سے اس حال میں واپس آیا ہوں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان
سے ارشاد فرما رہا تھا ” اے نہ کھانے والے! کھاؤ اور اے نہ پینے والے ! پیو اور
اے پریشانی میں زندگی گذارنے والے! اب خوش حال اور آسودہ رہو ۔“ (۱)
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ امین }
Post a Comment