Mujadd Alf sani biography | مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی

اس مضمون میں ہم مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مبارک زندگی کے چند واقعات پڑھنے والے ہیں اس مضمون کو پورا پڑھیے انشاءاللہ بہت اچھی معلومات حاصل ہو گی اور آپ کے علم میں اضافہ ہوگا 

Mujadd Alf sani biography 

مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللّٰہ علیہ

Mujadd Alf sani biography

ولادت باسعادت

سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کہ عظیم پرواہ  سید نا مجدد الف ثانی شیخ احمد سر ہندی فاروقی
نقشبندی علیه الرحمہ کی ولادت با سعادت (BIRTH) ہند کے مقام سرہند میں
1563ء 971ھ کو ہوئی ۔ ( زبدة المقامات ص ۱۲۷ ماخوذاً ) آپ رحمۃ الله تعالی علیہ کا نام
مبارک: احمد، کنیت ابو البرکات اور لقب بدرالدین ہے۔ آپ رحمة اللہ وتعالیٰ عليه امير المُؤْمِنِين
حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی للہ تعالی عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔

قلعے کی تعمیر اور پانچویں جد امجد کی برکت

(حکایت)
حضرت سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پانچویں جد امجد حضرت سیدنا
امام رفیع الدین فاروقی سہر وردی رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت سید نا مخدوم جہانیاں جہاں
گشت سید جلال الدین بخاری شہروردی رحمه الله تعالی علیہ (وفات: 785ھ ) کے خلیفہ
تھے ۔ جب یہ دونوں حضرات ہند تشریف لائے اور سرہند شریف سے " موضع سرائس"
پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے درخواست کی کہ موضع سرائس اور سامانہ" کا درمیانی
راستہ خطرناک ہے ، جنگل میں پھاڑ کھانے والے خوفناک جنگلی جانور ہیں ، آپ
وقت کے بادشاہ ) سلطان فیروز شاہ تغلق کو ان دونوں کے درمیان ایک شہر آباد کرنے کا
فرما ئیں تا کہ لوگوں کو آسانی ہو۔ چنانچہ حضرت سید نا شیخ امام رفیع الدین سہروردی رحمۃ الله
تعال علیہ کے بڑے بھائی خواجہ فسح الله رحم اللہ تعالی علیہ نے سلطان فیروز شاہ تغلق کے حکم پر
ایک قلعے کی تعمیر شروع کی لیکن عجیب حادثہ پیش آیا کہ ایک دن میں جتنا قلعہ تعمیر کیا جاتا
دوسرے دن وہ سب ٹوٹ پھوٹ کر گر جاتا، حضرت سید نا مخدوم سید جلال الدین بخارہ
(اندی)
سہروردی رحمہ اللہ تعالی علیہ کو جب اس حادثے کا علم ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حضرت
امام رفیع الدین سہروردی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو لکھا کہ آپ خود جا کر قلعے کی بنیادرکھیے اور اس
شہر میں سکونت ( یعنی مستقل قیام ) فرمائیے ، چنانچہ آپ رحمہ اللہ تعالا بہ تشریف لائے قلعہ تعمیر
فرمایا اور پھر یہیں سکونت اختیار فرمائی ۔ حضرت سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی
ولادت با سعادت اس شہر میں ہوئی۔
(زيدَةُ المَقامات ص ٨٩ مُلخصا)

والد ماجد کا مقام

حضرت سیدنا مجددالف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے والد ماجد حضرت سیدنا شیخ عبدالاحد
فاروقی چشتی قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ جید عالم دین اور ولی کامل تھے۔ آپ رحمتہ الله تعال عليه
ایام جوانی میں اکتساب فیض کے لیے حضرت شیخ عبد القدوس چشتی صابری علیه الرحمہ
( متوفہ1537ء944ھ) کی خدمت میں حاضر ہوئے آستانہ عالی پر قیام کا ارادہ کیا لیکن
حضرت شیخ عبد القدوس چشتی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا: "علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد آنا "
آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ جب تحصیل علم کے بعد حاضر ہوئے تو حضرت شیخ عبدالقدوس چشتی رحمۃ اللّٰہ علیہ وصال فرما چکے تھے اور ان کے شہزادے شیخ رکن الدین چشتی رحمۃ اللّٰہ علیہ
(وفات: 983-1575) مسند خلافت پر جلوہ افروز تھے۔ آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ علیہ نے حضرت
شيخ عبدالاحد فاروقی رحمة اللہ علیہ کو سلسلہ قادریہ اور چشتیہ میں خلافت سے مشرف فرمایا
اور فصیح و بلیغ عربی میں اجازت نامہ مرحمت فرمایا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کافی عرصہ سفر میں
رہے اور بہت سے اصحاب معرفت سے ملاقاتیں کیں، بالآخر سر ہند تشریف لے آئے اور
آخر عمر تک یہیں تشریف فرما ہو کر اسلامی کتب کا درس دیتے رہے۔ فقہ واصول میں بے نظیر
تھے، کتب صوفیائے کرام: تعرف عوارف المعارف اور فصوص الحکم کا درس بھی
دیتے تھے، بہت سے مشائخ نے آپ اشک اللہ تعالی علیہ سے استفادہ (یعنی فائدہ حاصل)
کیا۔ سکندر کے قریب اٹادے کے ایک نیک گھرانے میں آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا
نکاح ہوا تھا۔ امام ربانی کے والد محترم شیخ عبد الاحد فاروقی رشتہ اللہ تعال علیہ نے 80 سال کی
عمر میں 1007ھ 1599ء میں وصال فرمایا۔ آپ رحمۃ الله تعال علیہ کا مزار مبارک سرہند
شریف میں شہر کے مغربی جانب واقع ہے۔ آپ نشہ اللہ تعالی علیہ نے کئی کتب تصنیف
فرمائیں جن میں كنوز الحقائق اور اسرار التشهد بھی شامل ہیں ۔

تعليم و تربيت
حضرت سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے والد ماجد شیخ عبد الاحد علیہ
رحمة  سے کئی علوم حاصل کیے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل
کی محبت بھی اپنے والد ماجد رحمۃ الله تعال علیہ سے ملی تھی ، چنانچہ فرماتے ہیں: اس فقیر کو
عبادت نافلہ خصوصاً نفل نمازوں کی توفیق اپنے والد بزرگوار سے ملی ہے ۔ ( مبدا و تعاد ص 7)
والد ماجد کے علاوہ دوسرے اساتذہ سے بھی استفادہ (یعنی فائدہ حاصل کیا مثلا مولانا کمال
کشمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بعض مشکل کتا میں پڑھیں ، حضرت مولانا شیخ محمد یعقوب صرفی
کشمیری شہ اللہ تعالی علیہ سے کتب حدیث پڑھیں اور سند لی۔ حضرت قاضی بہلول باشی
رحمة الله تعالی علیہ سے قصیدہ بردہ شریف کے ساتھ ساتھ تفسیر و حدیث کی کئی کتابیں
پڑھیں ۔ حضرت سید نا مجاز و الف ثانی فرین برای انشوران نے 17 سال کی عمر میں علوم ظاہری
سے سند فراغت پائی۔
(خضرات القدس دفتر دوم ص (٣٢)

بیٹا هو تو ایسا!

حضرت سیدنا مجدد الف رحمۃ اللّٰہ علیہ  تحصیل علم کے بعد آگرہ ( ہند )
تشریف لائے اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا ، اپنے وقت کے بڑے بڑے فاضل
ملائے کرام ) آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر علم وحکمت کے چشمے سے سیراب
ہونے لگے۔ جب آگرہ میں کافی عرصہ گزرگیا تو والد ماجد علیہ رحمة الله الواحد کو آپ کی
یاد ستانے لگی اور آپ انکہ اللہ تعالی علیہ کو دیکھنے کے لیے بے چین ہو گئے، چنانچہ والد محترم
طویل سفر فرماکر آگرہ تشریف لائے اور اپنے لخت جگر (یعنی مجدد الف ثانی ) کی زیارت سے اپنی
آنکھیں ٹھنڈی کیں۔ آگرہ کے ایک عالم صاحب نے جب ان سے اس اچھا تک تشریف
آوری کا سبب پوچھا تو ارشاد فرمایا: شیخ احمد سرہندی) کی ملاقات کے شوق میں یہاں آگیا ،
چونکہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے ان کا میرے پاس آنا مشکل تھا اس لئے میں آگیا ہوں۔

مجدد الف ثانی کا حلیہ مبارك

آپ رحمتہ الله تعال علیه کی رنگت گندمی مائل بہ سفیدی تھی، پیشانی کشادہ اور چہرہ مبارک خوب ہیں نورانی تھا۔ ابر و دراز ، سیاہ اور باریک تھے۔ آنکھیں گشاد و اور بڑی جبکہ بینی (یعنی پاک ) باریک اور بلند تھی۔ لب (یعنی ہونٹ ) سرخ اور باریک، دانت موتی کی طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور چمکدار تھے۔ ریش (یعنی داڑھی ) مبارک خوب گھنی ، دراز اور مربع (یعنی چوکور تھی۔ آپ رحمة الله علیہ دراز قد اور نازک جسم تھے ۔ آپ کے جسم پر کبھی مکھی نہیں بیٹھتی تھی ۔ پاؤں کی ایڑیاں صاف اور چمک دار تھیں ۔ آپ نشد الموتعال علیہ ایسے نفیس (یعنی صاف ستھرے) تھےکہ پسینے سے ناگوار بو نہیں آتی تھی۔

سنت نكاح

حضرت سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی
رحم الله تعال علیہ جب آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو آگر ہ (ہند) سے اپنے ساتھ سرہند لے جا رہے
تھے، راستے میں جب تھا میسر ( تھا۔ نے سر ) پہنچے تو وہاں کے رئیس شیخ سلطان کی صاحبزادی سے
حضرت مجدد الف ثانی فنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا معتقد مسنون (یعنی سنت نکاہ) کروا دیا۔

مجدد الف ثانى حنفی ہیں

حضرت سید نا امام ربانی مجدد الف ثانیی رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت سیدنا امام اعظم
ابو حنیفہ نعمان بن ثابت  رضی اللہ تعالی علیہ کے مقلد ہونے کے سبب حنفی تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ
تعال علیہ سپید نا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بے انتہا عقیدت و محبت رکھتے تھے۔

اجازت و خلافت

حضرت سیدنا مجد والف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کو مختلف سلاسل طریقت میں
اجازت و خلافت حاصل تھی : 1 کے سلسلہ سہروردیہ کبرویہ میں اپنے استاد محترم حضرت شیخ
یعقوب کشمیری رحمہ اللہ تعالی علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی (۲) سلسلہ چشتیہ اور
قادریہ میں اپنے والد ماجد حضرت شیخ عبد الآخد چشتی قادری رحمۃ اللہ تعال علیہ سے اجازت و
خلافت حاصل تھی (۳) سلسلہ قادریہ میں کینلی ( مضافات سرہند ) کے بزرگ حضرت شاہ
سکندر قادری رحمہ اللہ تعالی علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی (٤) سلسلہ نقشبندیہ میں
حضرت خواجہ حمد باقی باللہ نقشبندی رحمۃ الله تعال علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی۔
(سیرت مجدد الف ثانی ص ۹) حضرت مجبر و الف ثانی قربانی با اک انشوران نے تین سلسلوں میں اکتاب
فیض کا یوں ذکر فرمایا ہے : " مجھے کثیر واسطوں کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و الہ وسلم
سے ارادت حاصل ہے۔ سلسایہ نقشبندیہ میں 21 ، سلسلہ قادریہ میں 25 اور سلسلہ چشتیہ میں
27 واسطوں سے ۔“
(مکتوبات امام ربانی، دفتر سوم، حصہ تم مکتوب ۸۷ ج ۲ ص ۲۶)

پیرو مرشد کا ادب و احترام 

حضرت سیدنا مجددالف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ محمد باقی بالله نقشبندی علیه رحمۃ  کا بے حد ادب و احترم فرمایا کرتے تھے اور حضرت خواجہ محمد باقی بالله نقشبندی بھی آپ کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ چنانچہ ایک
روز حضرت مجز و الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ ہجرہ شریف میں تخت پر آرام فرمارہے تھے کہ
حضرت خواجہ محمد باقی باللہ نقشبندی رحمة الله تعال علیہ دوسرے درویشوں کی طرح تن تنہا
تشریف لائے ۔ جب آپ نجرے کے دروازے پر پہنچے تو خادم نے حضرت مجدد الف ثانی
رحمۃ اللہ علیہ کو بیدار کرنا چاہا مگر آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے سختی سے منع فرمایا دیا اور کمرے
کے باہر ہی آپ کے جاگنے کا انتظار کرنے لگے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی آنکھ کھلی باہر آہٹ سن کر آواز دی کون ہے؟ حضرت خواجہ باقی بالله
رحمہ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: فقیر، محمد باقی ۔ آپ رحمہ اللہ تعالی علیہ آواز سنتے ہیں تخت سے
مضطربانہ (یعنی بے قراری کے عالم میں اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر آ کر نہایت بجز وانکساری
کے ساتھ پیر صاحب کے سامنے با ادب بیٹھ گئے۔
(زبدة المقامات ص ١٥٣ ملخصاً)

شوق تلاوت

حضرت سیدنا محجبة والف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ دوران سفر میں تلاوت قرآن کریم فرماتے
رہتے ، بسا اوقات تین تین چار چار پارے بھی مکمل فرمالیا کرتے تھے ۔ اس دوران آیت سجدہ
آتی تو سواری سے اتر کر سجدہ تلاوت فرماتے ۔

مجدد الف ثانی علیہ رحمۃ کی کرامات

(1) ایک وقت میں دس گھروں میں تشریف آوری (حکایت)
حضرت سیدنا جز و الف ثانی شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمہ کو دس مریدوں میں سے ہر ایک نے ماہِ رمضان المبارک میں ایک ہی دن افطار کی دعوت دی، آپ رحمہ اللہ تعالی علیہ
نے سب
کی دعوت قبول فرمالی ، جب غروب آفتاب کا وقت ہوا تو ایک ہی وقت میں سب کے
پاس تشریف لے گئے اور ان کے ساتھ روزہ افتار فرمایا (جامع كراسات الأولية لنهائي ع ١ من (٥٠)

(۲) فورآبارش بند ھو گئی 

ایک مرتبہ بارش برس رہی تھی تو حضرت سیدنا مجدد الف الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے
آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور بارش سے ارشادفرمایا: ”فلاں وقت تک رُک جا ! بچانچہ
بارش اس وقت تک تھم (یعنی رک گئی ۔

(ايضاج ( ص ٥٥٦)

(۳) اسے ھاتھی کے پاؤں تلے کچلوا دیا جائے 

ایک امیر زادے سے بادشاہ ناراض ہو گیا اور اسے مرکز الاولیا لاہور سے سرہند
طلب کیا۔ اس کے بارے میں یہ حکم جاری کیا کہ جیسے ہی یہ آئے تو اسے ہاتھی کے پاؤں کے
نیچے کچلو ا دیا جائے۔ وہ امیر زادہ جب سرہند پہنچا تو حضرت سید نا مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر نہایت ہی عاجزی کے ساتھ اپنی نجات کے لیے
عرض گزار ہوا۔ آپ رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے کچھ دیر مراقبہ کیا پھر فرمایا: بادشاہ کی طرف سے
تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی بلکہ وہ تم پر مہر بان ہوگا۔ اس امیر زادے نے عرض کی: عالیجاہ!
آپ لکھ کر دے دیئے تا کہ یہ تحریر میری تسکین قلبی (یعنی دل کے سکون ) کا سامان ہو۔ چنانچہ
آپ رحم اللہ تعالی علیہ نے اس کی تسلی کے لیے تحریر فرمایا: " وہ شخص بادشاہ کے ملنے کے خوف سے یہاں آیا ہے لہذا اس فقیر نے اپنی ضمانت میں لے کر اسے اس مصیبت سے رہائی
دی ۔ وہ امیر زادہ جیسے ہی بادشاہ کے دربار میں پہنچا تو آپ رحمتہ اللہ تعالی علیہ کے ارشاد کے
مطابق بادشاہ نے اُسے دیکھا تو مسکرایا اور نصیحت کے طور پر چند باتیں کہیں اور نہایت مہربانی
کے ساتھ انعام و اکرام سے نواز کر رخصت کر دیا۔ (عضوات القدس، دفتر دوم من ١٧٠ منقصاً )

(٤) بچے کے بارے میں غیبی خبردی 

حضرت سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایک عزیز کے ہاں بیٹا پیدا تو
ہوا لیکن چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو جاتا۔ ایک بار جب بیٹا پیدا ہوا تو وہ بچے کو لے کر آپ
رحمة اللہ تعلی علیہ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا سنایا اور عرض کی کہ ہم نے
منت مانی ہے کہ اگر یہ بچہ بڑا ہوا تو ہم اسے آپ کی غلامی میں دے دیں گے۔ آپ رحم الله
تعالی علیہ نے
ارشاد فرمایا: " اس کا نام عبدالحق رکھو، یہ زندہ رہے گا اور بڑی عمر پائے گا لیکن ہر
ماء حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند عليه رحمة  کی نیاز دلواتے رہو۔ الحمد لله
آپ رحمۃ الله تعالی علیہ کے فرمان کی برکت سے وہ بچہ بڑی عمر کو پہنچا ۔ (ایضاً ص ٢٠٠ ملخصاً)

وصال مبارك

28 صفر المظفر 1034 / 1624ء کو جان عزیز اپنے خالق حقیقی عزو جل
کے سپرد کر دی ۔ اِنَّا لِلّهِ وَاِنَّا إِلَيْهِ جِعُونَ (خضرات الفنس، دفتر دوم ص (۲۰۸)

نماز جنازه و تدفين

آپ رضی اللہ تعال علیہ کی نماز جنازہ آپ کے شہزادے حضرت خواجہ محمد سعید علیہ
رحمة  نے پڑھائی۔ اس کے بعد شہزادہ مرحوم حضرت خواجہ محمد صادق علیہ رحمة
کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔ یہ وہی مقام تھا جہاں حضرت
سید نا مجددالف ثانی علیہ الرحمۃ
نے اپنی زندگی میں ایک نور دیکھا تھا اور وصیت فرمائی تھی: " میری قبر میرے بیٹے کی قبر کےسامنے بنانا کہ میں وہاں جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری دیکھ رہا ہوں۔" اس
(یعنی گنبد ) میں پہلے شہزادہ مرحوم حضرت خواجہ محمد صادق عليه رحمة  1025ھ
کی تدفین ہوئی اور اس کے بعد حضرت سید نا مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو ان کے
پہلو میں دفن کیا گیا۔ اب اس روضہ شریف کو دو بار تعمیر کیا گیا ہے۔

( زبدة المقامات ص ٣٠٥٠٢٩٦٢٩٤ مُلخصا)

اولاد کے مبارک نام
آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ٧ شہزادے اور تین شہزادیاں تھی جن کی تفصیل یہ ہے
١ حضرت خواجہ محمد صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ
٢ حضرت محمد سعید رحمۃ اللّٰہ علیہ
٣ حضرت خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللّٰہ علیہ
٤ حضرت خواجہ محمد فرخ رحمۃ اللّٰہ علیہ
٥ حضرت خواجہ محمد عیسیٰ رحمۃ اللّٰہ علیہ
٦ حضرت خواجہ محمد اشرف رحمۃ اللّٰہ علیہ
٧ حضرت خواجہ محمد یحییٰ علیہ الرحمۃ
١ حضرت بی بی رقیہ رحمۃ اللّٰہ علیہا
٢ حضرت خدیجہ بانو رحمۃ اللّٰہ علیہا
٣ حضرت بی بی ام کلثوم رحمۃ اللّٰہ علیہا

خلفائے کرام

حضرت سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے چند خلفائے کرام کے نام یہ ہیں: (۱)
صاحبزادہ خواجہ محمد سادق (۲) صاحبزادہ خواجہ محمد سعید (۳) صاحبزادہ خواجہ محمد معصوم(٤) حضرت میر محمد نعمان برہان پوری (۵) شیخ محمد طاہر لاہوری (۱) شیخ کریم الدین
میر محمد
بابا حسن ابدالی (۷) خواجہ سید آدم بنوری (۸) شیخ نورمحمد پنی (۹) شیخ بدیع الدین (۱۰) شیخ
طاہر بد بخشی (۱) شیخ یا محمد قدیم طالقانی (۱۲) حضرت عبد الہادی بدایونی (۱۳) خواجہ حمد باشم
کشمی (۱٤) شیخ بدر الدین سرہندی رحمۃ اللّٰہ علیہم اجمعین

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.