فضائل مولا علی ۔۔کرامت مولا علی۔ fazaile mola Ali

معزز اسلامی بھائیو آپ اس مضمون میں امیر المومنین حضرت علی کرم اللٰہ وجہہ الکریم کی چند کرامتیں پڑھنے والے ہیں مضمون پورا پڑھیں آپ کے علم میں انشاءاللہ اضافہ ہوگا 

۔کرامت مولا علی۔ fazaile mola Ali 

۔۔کرامت مولا علی۔ fazaile mola Ali

مولیٰ علی نے خالی ہتھیلی پر دم کیا

ایک بار کسی بھکاری نے کفار سے سوال کیا، انہوں نے مذاقاً امیرُ الْمُؤْمِنِين
حضرت سیدنا مولی مشکل کشا، علی المرتضى، شیرِ خدا كَرم الله تعالى وَجْهَهُ الكَرِيہ کے
پاس بھیج دیا جو کہ سامنے تشریف فرما تھے ۔ اُس نے حاضر ہو کر دست سوال دراز کیا، آپ
کرم الله تعال وجه الکریم نے 10 بار درود شریف پڑھ کر اس کی ہتھیلی پر دم کر دیا اور فرمایا
بند کر لو اور جن لوگوں نے بھیجا ہے اُن کے سامنے جا کر کھول دو۔ (کفار ہنس رہے تھے کہ خالی
پھونک مارنے سے
کیا ہوتا ہے) مگر جب سائل نے اُن کے سامنے جا کر مٹھی کھولی تو اس میں
ایک دینار تھا! یہ کرامت دیکھ کر کئی کا فر مسلمان ہو گئے۔
( راحت القلوب ص ١٤٢ )

کٹا ھوا ھا تھ جوڑدیا

ایک حبشی غلام جو کہ امیر المؤمنین حیدر کرار، صاحب ذوالفقار حسنین کریمین
کے والد بزرگوار حضرت مولا مشکل کشا على المُرتَضَى شیر خدا کرم الله تعالى وَجْهَهُ الكَريم سے
بہت محبت کرتا تھا ، شامت اعمال سے اُس نے ایک مرتبہ چوری کر لی۔ لوگوں نے اس کو
پکڑ کر دربار خلافت میں پیش کر دیا اور غلام نے اپنے جرم کا اقرار بھی کر لیا ۔ امیر الْمُؤْمِنِين
حضرتِ سیدنا علَى الْمُرتَضَى كَرَمَ اللهُ تعالى وَجْهَهُ الکریم نے حکم شرعی نافذ کرتے ہوئے اس
کا ہاتھ کاٹ دیا۔ جب وہ اپنے گھر کوروانہ ہوا تو راستہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنه
اور ابن الكواء رضی اللہ تعالی علیہ سے ملاقات ہو گئی۔ ابن الكواء نے پوچھا: تمہارا ہاتھ کس
نے کاتا؟ تو غلام نے کہا : " امير الْمُؤْمِنِينَ وَيَعْسُوبُ المسلمين وزوج بتول کررم اللہ وجہہ الکریم ) نے ۔ ابنُ الْكَوَاء نے حیرت سے کہا: ”انہوں نے تمہارا ہاتھ کاٹ ڈالا پھر
بھی تم اس قدر اعزاز و اکرام کے ساتھ اُنکا نام لیتے ہو!" غلام نے کہا: ” میں ان کی
تعریف کیوں نہ کروں ! انہوں نے حق پر میرا ہاتھ کاٹا اور مجھے عذاب جہنم سے بچالیا۔“
حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی تعالی عنہ نے دونوں کی گفتگوسنی اور حضرت سیدنا
على الْمُرتَضى کرم الله تعالى وَجْهَهُ الکریہ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم  نے اُس غلام کو بلوایا اور اس کا کٹا ہوا ہاتھ کلائی پر رکھ کر رومال سے چھپا دیا پھر کچھ پڑھنا
شروع کر دیا ، اتنے میں ایک غیبی آواز آئی ” کپڑا ہٹاؤ ۔“ جب لوگوں نے کپڑا ہٹایا
تو غلام کا کٹا ہوا ہاتھ کلائی سے اس طرح جوڑ گیا تھا کہ کہیں کٹنے کا نشان تک
نہیں تھا!

( تفسير كبيرج ٧ ص ٤٣٤ )

دریا کی طغیانی خشم هوگئی

ایک مرتبہ نہر فرات میں ایسی خوفناک طغیانی آگئی (یعنی طوفان آگیا ) کہ سیلاب میں تمام
کھیتیاں غرقاب ہوگئیں ( یعنی ڈوب گئیں لوگوں نے حضرت سید نا على المُرتَضَى، شیرِ خدا
کرم اللہ وجہہ الکریم  کی بارگاہ پیکس پناہ میں فریاد کی۔ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم  فورا
کھڑے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا جبہ مبارکہ و عمامہ مُقدَّس

چادر مبارکہ زیب تن فرما کر گھوڑے پر سوار ہوئے ، حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنهما

اور دیگر کئی حضرات بھی ہمراہ چل پڑے ۔ فرات کے کنارے آپ کرم اللہ وجہہ الکریم
نے دو رکعت نماز ادا کی ، پھر پل پر تشریف لا کر اپنے عصا سے نہر فرات کی طرف
اشارہ کیا تو اُس کا پانی ایک گز کم ہو گیا، پھر دوسری مرتبہ اشارہ فرمایا تو مزید ایک گز کم ہوا
جب تیسری بار اشارہ کیا تو تین گز پانی اتر گیا اور سیلاب ختم ہو گیا۔ لوگوں نے التجا کی:
یا امیرُ الْمُؤْمِنِين ! بس کیجئے یہی کافی ہے۔

(شواهد النبوة ص ٢١٤)

چشمه ابل پڑا

مقام صفین جاتے ہوئے حضرت سید نا على المُرتَضى، شيرِ خُدا کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کا لشکر ایک ایسے میدان سے گزرا جہاں پانی نہیں تھا، پورا لشکر پیاس کی شدت
سے بے تاب ہو گیا۔ وہاں ایک گرجا گھر تھا، اُس کے راہب نے بتایا کہ یہاں
سے دو فرسخ (یعنی تقریباً 14 کلومیٹر) کے فاصلے پر پانی مل سکے گا۔ کچھ حضرات نے وہاں جا
کر پانی پینے کی اجازت طلب کی، یہ سنکر آپ کرم الله تعالى وجه الکریم اپنے خچر پر سوار ہو گئے اور ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے کھودنے کا حکم فرمایا، گھدائی شروع ہوئی ، ایک پتھر
ظاہر ہوا، اسے نکالنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں، یہ دیکھ کر مولی مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم  سواری سے اُترے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اس پتھر کی دراڑ میں ڈال کر
زور لگایا تو وہ پتھر نکل پڑا اور اس کے نیچے سے ایک نہایت صاف وشفاف اور شیریں (یعنی
میٹھے ) پانی کا چشمہ ابل پڑا ! اور تمام لشکر اُس سے سیراب ہو گیا۔ لوگوں نے اپنے
جانوروں کو بھی پلایا اورمشکیزے بھی بھر لئے ، پھر آپ کرم اللہ وجہہ الکریم  نے وہ پتھر
اُس کی جگہ پر رکھ دیا۔ گر جا گھر کا عیسائی راہب یہ کرامت دیکھ کر مولی مشکل کشا کرم اللہ تعالی
وَجْهَهُ الکریم کی خدمت میں عرض گزار ہوا: کیا آپ نبی ہیں؟ فرمایا: نہیں۔ پوچھا: کیا آپ
فرشتے ہیں؟ فرمایا نہیں۔ اُس نے کہا: پھر آپ کون ہیں؟ فرمایا: میں پیغمبر مرسل حضرت
سید نا محمد بن عبد الله خاتَمُ النَّبِيِّين صلى
الله تعالی علیہ والہ وسلم کا صحابی ہوں اور مجھ کو
تاجدار رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے چند باتوں کی وصیت بھی فرمائی ہے۔ اتنا سنتے
ہی وہ عیسائی راہب کلمہ شریف پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم
نے فرمایا تم نے اتنی مدت تک اسلام کیوں قبول نہیں کیا تھا؟ راہب نے کہا : ہماری
کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اس گرجا گھر کے قریب پانی کا ایک چشمہ پوشیدہ ہے، اس
چشمے کو وہ ہی شخص ظاہر کرے گا جو نبی ہوگا یا نبی کا صحابی ۔ چنانچہ میں اور مجھ سے پہلے بہت
سے راہب اس گر جا گھر میں اس انتظار میں مقیم رہے ۔ آج آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نے 

یہ چشمہ ظاہر کر دیا تو میری مراد برآئی اس لئے میں نے دین اسلام قبول کر لیا۔ راہب کا
بیان سن کر شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم  رو پڑے اور اس قدر روئے کہ ریش مبارک
آنسوؤں سے تر ہوگئی ، پھر ارشاد فرمایا: الحَمدُ لِله عَزوجَل کہ ان لوگوں کی کتابوں میں بھی
میرا ذکر ہے۔ یہ راہب مسلمان ہو کر آپ کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم  کے خادموں!
میں شامل ہو گیا اور شامیوں سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گیا اور مولی مشکل کشا نے اپنے
دست مبارک سے اُسے دفن کیا اور اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔

فالج زدہ اچھا ھوگیا

ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضى، شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم  اپنے دونوں شہزادوں حضرت سیدنا امام حسن و امام حسین رضی لله تعالى عنہما کے
ساتھ حرم کعبہ میں حاضر تھے کہ دیکھا وہاں ایک شخص خوب رورو کر اپنی حاجت کے لیے دعا
مانگ رہا ہے۔ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم  نے حکم دیا کہ اس شخص کو میرے پاس لاؤ۔ اس
شخص کی ایک کروٹ چونکہ فالج زدہ تھی لہذا زمین پر گھسٹتا ہوا حاضر ہوا، آپ کرم اللہ تعالی
وَجْهَهُ الکریم نے اُس کا واقعہ دریافت فرمایا تو اُس نے عرض کی : یا امیر المؤمنین ! میں گناہوں
کے معاملے میں نہایت بے باک تھا، میرے والد محترم جو کہ ایک نیک و صالح مسلمان
تھے، مجھے بار بار ٹو کتے اور گناہوں سے روکتے تھے ، ایک دن والد ماجد کی نصیحت سے مجھے
غصہ آگیا اور میں نے ان پر ہاتھ اٹھا دیا میری مارکھا کر وہ رنج وغم میں ڈوبے ہوئے حرم کعبہ
میں آئے اور انہوں نے میرے لئے بددعا کر دی، اس دعا کے اثر سے اچانک میری ایک
گروٹ پر فالج کا حملہ ہو گیا اور میں زمین پر گھسٹ کر چلنے لگا۔ اس غیبی سزا سے مجھے بڑی
عبرت حاصل ہوئی اور میں نے رورو کر والد محترم سے معافی مانگی ، انہوں نے شفقت پدری
سے مغلوب ہو کر مجھ پر رحم  کھایا اور معاف کر دیا۔ پھر فرمایا: ” بیٹا چل! میں نے جہاں
تیرے لیے بددعا کی تھی و ہیں اب تیرے لئے صحت کی دُعا مانگوں گا۔ چنانچہ ہم باپ بیٹے
اوٹنی پر سوار ہو کر مکہ معظمہ آرہے تھے کہ راستے میں یکا یک اونٹنی
بدک کر بھاگنے لگی اور میرے والد ماجد اُس کی پیٹھ پر سے گر کر دو چٹانوں کے درمیان
وفات پاگئے ۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون اب میں اکیلا ہی حرمِ کعبہ میں حاضر ہو کر دن رات رو رو کر خدا تعالیٰ سے اپنی تندرستی کے لیے دعائیں مانگتا رہتا ہوں۔
امیرالمومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم  کو اس کی داستان عبرت
نشان سن کر اس پر بڑا رحم آیا اور فرمایا: اے شخص ! اگر واقعی تمہارے والد صاحب تم سے راضی ہو
گئے تھے تو اطمینان رکھو ان شاء اللہ سب بہتر ہو جائے گا، پھر آپ کرم اللہ تعالیٰ وَجْهَهُ الکریم نے
چند رکعت نماز پڑھ کر اُس کیلئے دعائے صحت کی پھر فرمایا: قم یعنی کھڑا ہو“ یہ سنتے ہی وہ
بلا تکلف اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور چلنے پھرنے لگا۔ (ملخص از حجة الله على العالمين ص ٦١٤)

کیوں نہ مشکللشا کہوں تم کو۔۔                  
تم نے بگڑی میری بنائی ہے۔                    

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.