sabir piya | مخدوم علاءالدین صابر کلیری
sabir piya | مخدوم علاءالدین صابر کلیری
صابر لقب کیسے ملا
(فیضان حضرت صابر پاک، ص۲)
ولادت صابر پاک
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت (Birth) 19 ربیع الاول ۵۹۲ھ مطابق 19 فروری۱۹۶ ء کو بوقت تہجد بروز جمعرات ہرات (افغانستان ) میں ہوئی۔ آپ رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِ حسنی سید ہیں اور حضور غوثِ اعظم رحمہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت سید نا ابو القاسم گرگانی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے کان میں اذان دی اور فرمایا: یہ بچہ قطب عالم ہو گا۔
(فیضان حضرت صابر پاک ، ص ۳-۵ انتظا )
علی احمد نام کیسے رکھاگیا
منقول ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت (Birth) سے قبل حضرت سید نا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے خواب میں ”علی“ نام رکھنے کا حکم فرمایا پھر نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خواب میں تشریف لا کر احمد “ نام رکھنے کا حکم فرمایا۔ یوں آپ رحمة اللہ علیہ کا نام علی احمد رکھا گیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت (Birth) کے بعدایک بزرگ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ابو جان سے ملاقات کے لیے تشریف لائے اورآپ کو دیکھ کر فرمایا: "یہ بچہ علاء الدین کہلائے گا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ماموں حضرت سید نا بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ الله علیہ نے آپ رحمة اللہ علیہ کو صابر کا لقب عطا فرمایا یہی وجہ ہے کہ آپ رحمہ اللہ علیہ کو ” علاء الدین علی احمد صابر “ کے نام سے شہرت حاصل ہے۔
بچپن سے ہی تہجد کی پابندی
حضرت سید نا علاء الدین علی احمد صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ نے چھ سال کی عمرسے باقاعدہ ظاہری و باطنی آداب کے ساتھ نماز ادا کرنی شروع فرمادی تھی اور کہا
جاتا ہے کہ ساتواں سال شروع ہونے پر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پابندی کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھنی شروع فرمادی۔ اللہ پاک کی عبادت میں ہر وقت مشغول رہتے۔ بلکہ نماز تہجد کے بعد اکثر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے کمرے سے ذکر اللہ کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ (فیضان حضرت صابر پاک،ص۸)
چھوٹی عمر میں ہی روزہ رکھنے کا معمول
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا چھوٹی عمر سے ہی روزہ رکھنے کا معمول تھا اور مسلسل روزہ رکھنے کی یہ عادت آپ رحمتہ اللہ علیہ کی آخری عمر تک جاری رہی۔
سانپ نہیں کاٹے گا
آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ابو جان ایک دن آنکھیں بند کیے مراقبے میں مشغول تھے کہ اچانک مرے ہوئے سانپ کا ایک ٹکڑا آپ رحمۃ اللہ علیہ پر اور دوسرا ٹکڑا زمین پر آگرا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت صابر پیا رحمۃ اللہ علیہ کی امی جان کو اس مردہ سانپ کی جانب متوجہ کیا وہ سانپ کے دو ٹکڑے دیکھ کر حیران رہ گئیں اور فرمایا: کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں؟ حضرت سیدنا صابر پیا رحمۃ اللہ علیہ نے امی جان کی تشویش دور کرتے ہوئے فرمایا: میں نے سانپوں کے بادشاہ کو مار دیا ہے اور سانپوں سے وعدہ لیا ہے کہ وہ میرے خاندان کے کسی فرد کو نہیں کاٹیں گے ۔
تین سال میں علوم ظاہری کی تکمیل
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ابو جان کا انتقال ہو گیا تو امی جان نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے بھائی حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے کر دیا۔ آپ
رحمة اللہ علیہ نے اپنی خداداد صلاحیت کی وجہ سے صرف تین سال کے مختصر عرصے میں کئی ظاہری علوم حاصل کر لئے ، حضرت بابا فرید رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
علاء الدین علی احمد صابر رحمۃ الله علیه نے تین سال میں عربی و فارسی کی کتب فقہ ،حدیث، تفسیر ، منطق و معانی وغیرہاعلوم کی تکمیل کی۔ یہ سب علوم اتنی جلدی حاصل کر لئے کہ کوئی دوسرا بچہ 15 سال میں بھی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔
( حضرت مخدوم علاء الدین علی احمد صابر کلیری ، ص ۱۴۸تلا)
دادا کی وفات کی پیشگی خبر دے دی
بچپن میں ایک دن حضرت صابر پیا کلیری رحمۃ الله علیه نے بابا فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ سے عرض کی: آج سے تین سال بعد میرے دادا جان فوت ہو جائیں
گے۔ یہ سُن کر بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: بیٹا! آپ کے دادا تو بغداد شریف میں ہیں اور آپ یہاں؟ پھر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ تین سال بعد ایسا ہو گا عرض کی : ابھی میں نے اپنے دل کی طرف دیکھا تو ابو جان کی صورت سامنے آگئی اور آپ نے سیدھے ہاتھ کی تین انگلیاں میری طرف اُٹھائیں اور یہ ( دادا جان کے ) انتقال کا اشارہ ہے۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ نے آپ کی فراست(یعنی سمجھداری) دیکھ کر آپ کو سینے سے لگالیا۔
خلافت کی عظیم الشان محفل
رمضان المبارک میں بعد نماز تہجد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمہ اللّٰہ علیہ کچھ دیر کے لیے آرام فرما ہوئے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی آنکھ لگ گئی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے
دیکھا کہ ایک ایسے مقام پر انوار میں اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ موجود ہیں کہ ہر طرف نور ہی نور ہے۔ ایک عالی شان
دربار سجا ہے اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم موجود ہیں۔ نیز سلسلہ چشتیہ کے تمام بزرگ بھی حسب مراتب اپنی اپنی جگہوں پر موجود ہیں۔ حضرت بابا فرید رحمة اللہ علیہ کے پیرو مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمہ اللہ علیہ نے حکم دیا: مخدوم علی احمد صابر کو مصطفے جانِ رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلہ کی بارگاہ میں پیش کیجئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حکم مر شد پر عمل کرتے ہوئے حضرت سیدنا علی احمد صابر رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بارگاہ رسالت میں حاضر کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت سید نا علی احمد صابر رحمہ اللہ علیہ کی پشت پر سیدھے کندھے کی جانب چوما اور فرمایا: "هذاولی اللہ یعنی یہ اللّٰہ پاک کا ولی ہے، اس کے بعد وہاں موجود تمام بزرگوں اور فرشتوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اد کو ادا کرتے ہوئے اُسی مقام کو چوما اور کہا: ” هذا ولی اللہ “ پھر ہر طرف سے مبارک باد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان مبارک باد کی آوازوں سے بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللّٰہ علیہ کی آنکھ کھل گئی۔اگلے دن حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ نے ایک عالی شان محفل کروائی، جس میں حضرت شیخ ابو الحسن شاذلی، حضرت شیخ حمید الدین ناگوری، حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی، حضرت شیخ ابو القاسم گرگانی رحمۃ اللّٰہ علیہم سمیت بڑے بڑے علماء واولیائے کرام شریک ہوئے۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے سب کے سامنے اپنا خواب بیان فرمایا جسے سنتے ہی وہاں موجود تمام بزرگوں نے ایک ایک کر کے حضرت سید نا صابر پیا رحت اللہ علیہ کی مہر ولایت (Stamp) کو چوما اور هذا ولی اللہ کہہ کر مبارک باد دی۔ اس کے بعد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللّٰہ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو خاندان چشتیہ کی امامت و خلافت عطافرما کر اپنے مبارک ہاتھ سے اپنی بابرکت ٹوپی پہنائی اور سبز سبز عمامے سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دستار بندی فرمائی پھر کلیر شہر کی ولایت و خلافت کی سند سب حاضرین محفل کو سنا کر عطا فرمائی۔
( تذکرہ حضرت صابر کلیر ، ص ۴۷ ملخصا)
نماز سے محبت
آپ رحمتہ اللہ علیہ کو نماز سے بے حد محبت تھی اور اس محبت کی وجہ آپ رحمہ اللہ علیہ نے یہ بیان فرمائی: نماز بھی کیا اچھی چیز ہے کہ حضوری (کی برکت) سے دربار ( یعنیدر بار الہی ) میں لے آئی ہے (یعنی نماز اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضری کا سبب بننے کی وجہ سے بہترین عبادت ہے ( (تذکرہ حضرت صابر کلیر ،ص ۸۲ ملی)
آپ رحمۃ الله علیہ کالباس گرتا، تہبند اور عمامہ شریف تھا۔ ( حضرت مخدوم علاء الدین علی احمد صابر کلیری ، ص ۸۰ متقطاً)
معمولات صابر پیا کلیری
آپ رحمۃ اللہ علیہ دن رات اللہ پاک کی یاد میں گزارتے ، لوگوں کی صحبت سے بچتے ، اکثر خاموش رہا کرتے ، آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خاموشی میں بھی ایک کشش تھی
اور جب کبھی آپ رحمة اللہ علیہ کچھ ارشاد فرماتے تو فقط ایک جملے میں کئی سوالات کے جوابات عطا فرما دیتے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کرامتوں کو چھپاتے ، اگر کوئی اس کا ذکر کر تا تو اسے نہایت خوبصورتی سے ٹال دیتے ، آپ رحمہ اللہ علیہ تارک الدنیا (یعنی دنیا سے بے رغبتی رکھنے والے) بزرگ تھے لیکن لوگوں کی اصلاح کو ضرور فرماتے، ان خوبیوں کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ علیہ دُنیا کی رونق تھے۔
نظام الدین اولیاء اور حضرت صابر پاک
محبوب الہی حضرت سید محمد نظام الدین اولیاء رحمۃاللہ علیہ حضرت صابر پیا رحمۃ اللّٰہ علیہ کا بے حد احترام فرماتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ علیہ کے پاس سے جب کوئی شخص حضرت صابر پیارحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہتا تو اسے بہت زیادہ احترام کرنے کی تاکید فرماتے نیز ارشاد فرماتے: کوئی بات خلاف مزاج نہ ہو۔ دونوں بزرگ ایک دوسرے سے بے حد محبت فرماتے تھے۔
(سیر الاقطاب منتر نہم ، ص ۲۰۰)
شمس الدین ترک پانی پتی اور حضرت صابر پیا
جب حضرت سید نا شمس الدین ترک رحمۃ اللّٰہ علیہ فیض حاصل کرنے کے لیے کلیر شریف حاضر ہوئے تو اُس وقت آپ رحمہ اللہ علیہ ایک درخت کے نیچے تنہا عبادت
وریاضت میں مشغول تھے، لہذا شمس الدین رحمة اللہ علیہ بھی ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تلاوت قرآن کرنے لگے ، جب حضرت سیدنا صابر پیا کلیری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے
کانوں میں کلام الہی کی مٹھاس رس گھولنے لگی تو آپ رحمہ اللہ علیہ اس جانب متوجہ ہوئے اور جہاں سے آواز آرہی تھی اسی طرف چل پڑے، جب حضرت سیدنا شمس الدین رحمتہ اللہ علیہ نے تلاوت ختم کر کے سر اٹھایا تو آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ کو وہاں موجود پاکر گھبرا گئے۔ لیکن آپ نے نہایت نرمی سے فرمایا: شمس ! گھبراتے کیوں ہو ؟ ہم تم سے بہت خوش ہیں۔ “پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے مریدوں میں داخل فرما کر اپنے مبارک ہاتھوں سے دستار بندی فرمائی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک لمبے عرصے تک مرشد کی خدمت میں رہے ، وضو کراتے اور کھانے کا انتظام بھی فرماتے یوں آپ رَحْمَۃ اللّٰہ علیہ مرشد کے خدمت گزار بن گئے۔ (تذکر و اولیائے پاک وہند ، ص ۷۶ ماخوذا)
شمس الدین ترک پانی پتی, میرا دوست ہے
حضرت سید نا صابر پیا کلیری رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے نکلنے والی بات اللہ پاک کی بارگاہ میں بہت جلد مقبول ہو جایا کرتی تھی اسی لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا لقب
سیف لسان بھی ہے ۔ ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیدنا شمس الدین ترک رحمتہ اللہ علیہ کو پانی لانے کے لئے بھیجا جس میں کچھ دیر ہو گئی ، جب آپ رحمۃ اللہ علیہ واپس آئے تو حضرت سیدنا صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کی زبان مبارک سے یہ جملے ادا ہو گئے : ایک پیالہ پانی لانے میں اتنی دیر ؟ شمس الدین ! کیا دکھائی نہیں دیتا؟ جو نہی آپ رحمہ اللہ علیہ پانی کا پیالہ لے کر پینے کے لئے بیٹھے تو حضرت سیدنا شمش الدین ترک رحمہ اللہ علیہ کے منہ سے درد بھری آہ نکلی پھر فورا عرض کی : "حضورمیں تو نابینا ہو گیا۔“ یہ دیکھ کر حضرت سیدنا صابر پیا کلیری رحمة الله علیہ سجدہ کرتے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے: "یا اللہ شمس تو تیرے اس گنہگار بندے کا دوست اور واحد ساتھی ہے تو اس کے حال پر رحم فرما۔ " جیسے ہی دعا ختم ہوئی حضرت سیدنا شمس الدین ترک رحمہ اللہ علیہ کی نظر واپس آچکی تھی۔
نظر صابر کا انتخاب آپ رضی اللہ علیہ حضرت سید نا شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ سے بے حد محبت فرماتے،ایک مرتبہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: "اے شمس تو میرا بیٹا ہے، میں نے خدا سےچاہا ہے کہ میر اسلسلہ تجھ سے جاری ہو اور قیامت تک رہے ۔آخری عمر میں آپ رحمہ اللہ علیہ نے اپنے ہاتھ سے خلافت نامہ لکھ کر حضرت شیخ شمس الدین ترک رحمۃ اللّٰہ علیہ کو خلافت عطا فرما کر پانی پت کا صاحب ولایت مقرر فرمایا۔ اور اسم اعظم جو بزرگوں سے سینہ بسینہ چلا آرہا تھا اس کی تلقین فرمائی اور یہ وصیت فرمائی: "تین دن سے زیادہ یہاں نہ رہنا، اللہ پاک نے تمہیں پانی پت کی ولایت عطا فرمائی ہے ،
وہاں جاکر رہنا اور بھٹکے ہوئے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا، میں ہر جگہ تمہارا معاون رہوں گا۔ “ حضرت شیخ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ نے بارگاہ مرشد میں عرض کی: حضور ! میرا ارادہ یہ تھا کہ باقی عمر ( آپ کے آستانہ عالیہ کی جاروب کشی(یعنی جھاڑو لگاتا، خدمت) کرتا۔ آب آپ کا حکم ہے کہ پانی پت جاؤ۔ لیکن وہاں شیخ شرف الدین بوعلی قلندر پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ موجود ہیں معلوم نہیں کہ وہ مجھ سے کس طرح پیش آتے ہیں ؟ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: فکر مت کرو تمہارے وہاں پہنچتے ہی وہ وہاں سے چلے جائیں گے ۔ (فیضان حضرت صابر پاک ، ص۳۹)
علاءالدین صابر کلیری انتقال شريف
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک دن شمس الدین ترک رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا: جب آپ سے کوئی کرامت ظاہر ہو تو سمجھ لیجیے گا کہ میرا انتقال ہو گیا ہے۔ جس دن حضرت
سیدنا شمس الدین ترک رحمہ اللہ علیہ سے کرامت ظاہر ہوئی فوراً کلیر شریف حاضر ہوئے، حضور صابر پیا کلیری رحمہ اللہ علیہ کا انتقال شریف ۱۳ربیع الاول ۶۹۰ ھ مطابق
۱۵ مارچ ۱۳۹۱ ء کو ہوا اور حضرت سید نا شمس الدین ترک رحمتہ اللہ علیہ نے کفن دفن کی خدمت انجام دی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار شریف کلیر شریف ضلع سہارن پور
(یوپی) کہ کنارے ہے۔ (فیضان حضرت صابر پاک، ص ۴۱
مزار کی بے حرمتی کی فور سزا
حضور صابر پیاکلیر ی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار شریف کے پاس سے ایک کا فر گزر رہا تھا، اس نے جب یہ دیکھا کہ مزار شریف پر کوئی نہیں تو اس کی نیت خراب ہوئی
اور اسے مزارِ مبارک شہید کر کے اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے کی سو جبھی لہذا اس نے اپنے اس ناپاک ارادے کے لیے ایک تیشہ ( ایک اوزار ) لیا اور کچھ کرنے لگا تو اس کی
توجہ مزار شریف کے روشن دان کی طرف گئی تو تجسس سے اس نے روشن دان سے جھانک کر اندر دیکھنا چاہا مگر اس کا سر پھنس گیا اور دم گھٹنے کی وجہ سے وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ رات کو مزار کے خدمت گاروں کے خواب میں حضرت سید نا صابر پیا کلیری رحمة اللہ علیہ تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: ” ایک شخص گستاخی کے ارادے سے ہمارے مزار پر آیا تھا اُسے سزا تو مل گئی ہے اب وہ مزار کے روشن دان سے لٹکا ہوا ہے اسے اگر نکال دیا جائے۔ دوسری صبح وہ خدمت گار اپنے ساتھیوں کے ساتھ مزار پر حاضر ہوئے، اس کا فر کو کھینچ کر باہر نکالا اور اُس کی لاش جنگل میں پھینک دی۔
(تذکرہ اولیائے بر صغیر ۲/ ۵ ملخصا)
Post a Comment