Islamic stories.. حضرت عمر فاروق کے واقعات
آج ہم آپ کو جو Islamic stories بتانے والے ہیں وه حضرت عمر فاروق کے واقعات ہیں آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کے چند واقعات آپ کی خدمت میں حاضر ہیں
میں ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ 39 مردوں کے بعد ، سید عالم نور مجسم صلی اللہ تعالی
علیہ وآلہ وسلم کی دُعا سے اعلان نبوت کے چھٹے سال ایمان لائے ، اس لیے آپ
رضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنه ومُتَمِّم الأربعين یعنی " 40 کا عدد پورا کرنے والا کہتے ہیں۔
سب سے پہلے آپ ہی کو امیر المُؤْمِنِین “ کا لقب دیا گیا۔ آپ کے زمانہ
خلافت میں ایک بار زبر دست قحط پڑا ۔ آپ نے بارش طلب کرنے کے لئے حضرت
سید نا عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ نماز استسقاء (طلب بارش کے لیے پڑھی جانے
والی نماز ادا فرمائی ۔ حضرت سید نا ابن عون رَحْمَةُ اللهِ تَعَالَى عَلیہ فرماتے ہیں کہ
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سید نا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ
پکڑا اور اس کو بلند کر کے اس طرح بارگاہ الہی میں دُعا کی: "اللَّهُمَّ إِنَّا نَتَوَسلُ إِلَيْكَ بعَم نَبِيِّكَ أَنْ تَذَهَبَ عَنَّا الْمَحْلَ وَأَنْ تَسْقِينَا الْغَيْتَ یعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! ہم تیرے نبی صلی اللہ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کے چاچا کو وسیلہ بنا کر تیری بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ قحط اور خشک سالی کوختم فرمادے اور ہم پر رحمت والی بارش نازل فرما۔ یہ دعا مانگ کر ابھی واپس بھی نہیں ہوئے تھے کہ بارش شروع ہوگئی اور کئی روز تک مسلسل ہوتی رہی۔
آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کا سلام آیا
اسلامی بھائیو! اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کے نیک بندوں کے وسیلے سے بارشیں آتیں ، خشک سالی دور ہوتی ، دعا ئیں قبول ہوتیں اور حاجتیں بر آتی ہیں۔ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سید نا عباس رضی اللہ تَعَالٰی عَدُہ کو وسیلہ بنایا، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وصال پا جانے والے بزرگانِ دین رَحِمَهُمُ اللهُ المُبین کو وسیلہ بنانا جائز نہیں ۔ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وسَلَّم کے بجائے حضرت سید نا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو اس لیے وسیلہ بنایا تا کہ لوگوں پر واضح ہو جائے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِہ وَسَلَّم کے علاوہ ہستیوں کو بھی وسیلہ بنانا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ تمام صحابہ کرام رضوان الله تعالى عَلَيْهِم اجمعین میں سے حضرت سید نا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو اس لیے خاص کیا تاکہ اہل بیت کی عزت و شرافت ظاہر ہو۔ آپ صلی اللہ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَآلِہ وَسَلَّم کی ظاہری وفات کے بعد بھی صحابہ کرام عَلَيْهِمُ الرِّضْوَان کا آپ صلَّى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وسلم کو وسیلہ بنانا ثابت ہے۔ حضرت سیدنا امام بیہقی عَلَيْهِ رَحْمَةُ اللهِ القوى نقل
فرماتے ہیں کہ لوگ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ کے
عہد خلافت میں قحط میں مبتلا ہو گئے تو ایک شخص نور کے پیکر، تمام نبیوں کے
سرورصلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِہ وَسَلَّم کے روضہ انور پر حاضر ہوا اور عرض کی :
يارسول الله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِہ وَسَلَّہ ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا
فرمائیں ، لوگ ہلاکت کے قریب پہنچ گئے ہیں ۔ پھر وہ خواب میں آپ صلی اللہ تَعَالٰی عَلَیهِ وَآلِہ وَسَلَّم کی زیارت سے مشرف ہوا، حضور نبی مکرم نور مجسم صلی اللہ
تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ” عمر بن خطاب کے پاس جا کر انہیں سلام کہو
اور بتاؤ کہ انہیں بارش سے سیراب کیا جائے گا اور ان سے کہنا کہ عقلمندی کا دامن
ہاتھ سے مت چھوڑنا۔ چنانچہ وہ شخص امیر المؤمنین حضرت سید ناعمر فاروق رضی
اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور آپ کو اس بات کی خبر دی تو آپ رَضِی اللہ تعالی عنہ رو
پڑے اور عرض کی: یا اللہ عزوجل! جس کام سے میں عاجز نہیں ہوتا اس میں کو تا ہی نہیں کرتا ۔ “
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی انگوٹھی پر یہ عبارت نقش تھی : كَفَی بِالْمَوْتِ وَاعِضًا يَا عُمر یعنی اے عمر ا نصیحت کے لئے موت کافی ہے۔23ھ بمطابق 644ء کو نماز فجر میں
ایک مجوسی غلام ابو لولوه فیروز فارسی نے دھوکے سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے
پہلو میں خنجر گھونپ دیا جس کی وجہ آپ رَضِی اللہ تعالی عنہ کی شہادت واقع ہوئی ۔
حضرت سید نا عُروہ بن زبیر رضی اللہ تَعَالٰی عَنہ سے روایت ہے کہ خلیفہ ولید *
بن عبد الملک کے زمانہ میں جب روضہ رسول کی دیوار گر پڑی اور لوگوں نے اس کی
تعمیر 87ھ میں شروع کی تو ( بنیاد کھودتے وقت ) ایک قدم ظاہر ہوا۔ تو سب لوگ گھبرا
گئے اور لوگوں کو خیال ہوا کہ شاید یہ حضور سید عالم صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کا قدم
مبارک ہے اور وہاں کوئی جاننے والانہیں ملا تو حضرت سید نا عُروہ بن زبیر رضی الله
تَعَالَی عَنْہ نے کہا: لَا وَاللَّهِ مَا هِيَ قَدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا هِيَ إِلَّا قَدَمُ عُمَرَ
رضي الله عنہ یعنی خدا کی قسم یہ حضور نبی کریم صلى الله تعالى عَلَيْهِ وَالِ، وَسَلَّم کا قدم شریف
نہیں ہے بلکہ یہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا قدم مبارک ہے۔
یعنی تقریبا 64 سال کے بعد بھی امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق رضی
الله تعالی عنہ کا جسم مبارک بدستور سابق رہا اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی۔
زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں اس کے نام پر
الله الله موت کو کس نے مسیحا کر دیا
آپ کے فرامین
حضرت سید نا عبد الرحمن بن عوف رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ کہتے ہیں جب آلِ کسرا کے خزانوں کو آپ کے پاس لایا گیا تو آپ رونے لگے میں نے کہا :
یا امیر المؤمنین! کس چیز نے آپ کو رلایا ہے؟ آج تو شکر کا دن ہے، فرحت وسرور
کا دن ہے ۔ ارشاد فرمایا: ” جس قوم کے پاس بھی اس ( مال ) کی کثرت ہو جائے تو اللہ عزوجل ان کے درمیان بغض وعداوت دال دیتا ہے
برادران اسلام: آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ فرمانا کہ جس قوم کے پاس
بھی مال کی کثرت ہو جائے تو اللہ عزوجل ان کے درمیان بغض و عداوت ڈال دیتا
ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ نے یہ بات اس لیے کہی ہو کہ جس کا مال زیادہ ہوتا ہے
اسے لوگوں کی حاجت بھی زیادہ ہوتی ہے اور جولوگوں کا محتاج ہو اس کا لوگوں کے
ساتھ منافقت کرنا ناگزیر ہے اور وہ لوگوں کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے
اللہ عزوجل کی نافرمانی کرتا ہے اور مخلوق کی طرف حاجت سے دوستی اور دشمنی
دونوں پیدا ہوتی ہیں اور اس سے حسد، کینہ، ریا، تکبر، جھوٹ ، چغلی ، غیبت اور ایسے
تمام گناہ پیدا ہوتے ہیں جو دل اور زبان کے ساتھ خاص ہیں اور پھر یہ تمام اعضا
کی طرف متعدی ہوتے ہیں اور یہ سب مال کی نحوست کی وجہ سے ہوتا ہے۔
(١) ( کسی کی تعریف کرنا گویا اسے ذبح کرنا ہے۔ )
(٢)آدمی کے بے عقل ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسے جب بھی کسی چیز کے کھانے کی خواہش ہو تو اسے کھالے
میری خلافت مجھے لے ڈوبتی:
حضرت سیدنا ابوبکر عبد الله بن محمد بن عبيد المعروف امام ابن ابی دُنیا
رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ حضرت سید نا عباس رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ نے
فرمایا: مجھے امیر المومنین حضرت سید نا عمر بن خطابِ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ کو ان کے
وصال کے بعد خواب میں دیکھنے کی شدید خواہش تھی ۔ تقریباً ایک سال بعد میں
نے انہیں خواب میں اس حال میں دیکھا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی پیشانی سے
پسینہ پونچھ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ” میں ابھی ابھی (حساب وکتاب) سے
فارغ ہوا ہوں اگر میں اپنے رب عزوجل کو رءوف و رحیم نہ پا تا تو قریب تھا کہ میری خلافت مجھے لے ڈوبتی
الله عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔ امین }
حضرت عمر فاروق کے واقعات پڑھ کر اپنی رائے ضرور دیں
Post a Comment