اعلی حضرت کی حالات زندگی | Ala hazrat biography

سیرت اعلی حضرت امام احمد رضا خان عَلَيْہ الرحمہ 

| Ala hazrat biography

اعلیٰ حضرت کی حالات زندگی 

اعلی حضرت ، امام اہلسنت مجدد دین وملت، پروانۂ شمع رسالت کا نام مبارکم حمد ہے اور آپ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے

مشہور ہوئے۔ اعلی حضرت عَلَيْهِ رَحْمَةٌ رَبِّ الْعِزَّت کا پورا نام عبد المصطفى احمد رضا خان بن نقی علی خان بن رضا علی خان بن محمد کاظم علی خان بن محمد اعظم خان بن

محمد سعادت یار خان بن محمد سعید اللہ خان رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ ہے۔

آپ رَحْمَةُ اللهِ تَعَالٰی عَلَیہ کے آبا و اجداد قندہار کے موقر قبیلہ بڑہیچ کے پٹھان تھے۔

اعلیٰ حضرت کی ولادت 

آپ رَحْمَةُ اللهِ تعالی علیہ کا تاریخی نام "المختار ہے۔ اعلی حضرت کی ولادت با سعادت

شہر بریلی شریف محلہ جسولی میں 10 شوال المکرم 1272ھ مطابق 14 جون 1856ء کو ہوئی۔ 

آپ رَحْمَةُ اللهِ تعالی علیہ عالم باعمل، حافظ قرآن، متقی و پرہیز گار، فقیه، مجددوقت اور با کرامت ولی تھے۔ فتویٰ نویسی میں اپنے ہم عصر علما میں ممتاز تھے ۔ 13

سال کی عمر میں پہلا فتویٰ لکھا اور تقریبا 54 سال تک یہ فرائض بحسن و خوبی انجام

دیتے رہے۔ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ 14 شعبان 1286 ھ (بمطابق 1869 ء )کو اس فقیر نے پہلا فتویٰ لکھا اور اس 14 شعبان 1286ھ کو منصب افتا عطا ہوا اور

اسی تاریخ سے بحمد اللہ تعالی نماز فرض ہوئی ۔" 

عادات اعلیٰ حضرت 

جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ اعلی حضرت قبلہ رَحْمَةُ اللهِ تعالی علیہ کی بعض عادات کریمہ یہ بھی تھیں کہ بشکل نام اقدس ( محمد ) صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ

وَالِہ وَسَلَّم استراحت فرمانا ٹھٹھہ نہ لگانا، جماہی آنے پر انگلی دانتوں میں دبالینا اور

کوئی آواز نہ نکالنا، کلی کرتے وقت دست چپ ( بایاں ہاتھ ) ریش مبارک پر رکھ کر خمیدہ سر ہو کر پانی منہ سے گرانا، قبلہ کی طرف رخ کر کےکبھی نہ تھوکنا، نہ قبلہ کی

طرف پائے مبارک دراز کرنا، نماز پنجگانہ مسجد میں باجماعت ادا کرنا، فرض نماز باعمامہ پڑھنا، بغیر صوف پڑی دوات سے نفرت کرنا، یو ہیں لوہے کے قلم سے

اجتناب کرنا، خط بنواتے وقت اپنا کنگھا وشیشہ استعمال فرمانا مسواک کرنا اور سرمبارک میں پھلیل (خوشبودار تیل ) ڈلوانا ۔ 

اعلی حضرت کی تصانیف

اعلیٰ حضرت عَلَيْهِ رَحْمَةُ رَبِّ العزت نے مختلف عنوانات پر کم و بیش ایک ہزارکتابیں لکھیں ۔ یوں تو آپ رَحْمَةُ اللهِ تعالی علیہ نے 1286 ھ سے 1340 ھ تک لاکھوں فتوے لکھے لیکن افسوس ! کہ سب کو نقل نہ کیا جا سکا، جو نقل کر لیے گئے تھے ان کا نام الْعَطَايَا النَّبَوِيَّهِ فِي الْفَتَاوَى الرَّضَوِيَّة“ رکھا گیا۔ فتاوی رضویہ (مخرجه)

کی 30 جلدیں ہیں جن کے کل صفحات : 21656، کل سوالات و جوابات : 6847 اور کل رسائل : 206 ہیں۔ 

اعلی حضرت کی وفات

25 صفر 1340ھ بمطابق 1921 ء کو جمعۃ المبارک کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق 2 بج کر 38 منٹ پر عین اذان کے وقت ادھر مؤذن نے حی على الفلاح کہا اور ادھر امام اہلسنت، ولی نعمت عظیم البرکت حضرت علامہ مولانا

الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رضا خان عَلَيْهِ رَحْمَةُ الرَّحمن نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ )

اعلیٰ حضرت پر کرم مصطفی :

ادھر 25 صفر 1340ھ جمعۃ المبارک کے دن 2 بجکر 38 منٹ پر بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت دنیائے ناپائیدار سے روانہ ہور ہے ہیں اُدھر بیت المقدس کے ایک شامی بزرگ ٹھیک 25 صفر 1340 ھ کو خواب میں کیا دیکھ رہے

ہیں کہ حضور اقدس صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِہ وسلم تشریف فرما ہیں ۔ حضرات صحابہ کرام رِضْوَانُ اللهِ تَعَالَى عَلَيْهِمْ أَجْمَعِين حاضر دربار ہیں مجلس پر سکوت طاری ہے ایسامعلوم ہو رہا ہے کہ کسی آنے والے کا انتظار ہے وہ شامی بزرگ بارگاہ رسالت میں عرض کرتے ہیں: فِدَاكَ ابى وامى میرے باپ حضور پر قربان! کس کا انتظار ہورہا

ہے؟ ارشاد فرمایا: ” احمد رضا کا انتظار ہے ۔ انہوں نے عرض کی:” احمد رضا کون ہیں؟ فرمایا ” ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں۔ “ بیداری کے بعد انہوں

نے پتہ لگایا تو معلوم ہوا احمد رضا خان صاحب بڑے ہی جلیل القدر عالم ہیں اور اب تک بقید حیات ہیں تو وہ شوق ملاقات میں ہندوستان کی طرف چل پڑے

جب بریلی پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ آپ جس عاشق رسول کی ملاقات کو تشریف لائے ہیں و ہ 25 صفر المظاهر 1340 ھ کو اس دنیا سے روانہ ہو چکے ہیں۔ 

اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ امین }

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.